إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ
بلاشبہ اس واقعہ میں عبرت کی بہت بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں
2۔ بلکہ بے ایمان تھے ان میں سے صرف چند آدمی ایمان لائے تھے جیسے حزقیل اور اس کی بیٹی، فرعون کی بیوی حضرت آسیہ اور ایک بڑھیا جس نے حضرت یوسف کی قبر بتائی تھی۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر نکلے تو راستہ بھول گئے۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا ” یہ کیا“؟ بنی اسرائیل کے علما نے کہا ” حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے وفات کے وقت ہمارے بزرگوں سے عہد لیا تھا کہ جب تم مصر سے نکلو تو میرا تابوت ساتھ لے کر جانا۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے پوچھا تم میں سے کسی شخص کو ان کی قبر کا علم ہے۔ وہ کہنے لگے صرف ایک بڑھیا کو اس کا علم ہے بڑھیا سے دریافت کرنے پر اس نے جواب دیا کہ ” میں اس شرط پر بتائوں گی کہ آپ میرا یہ مطالبہ تسلیم کرلیں ہ میں جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہوں گی۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے یہ مطالبہ تسلیم کرلیا۔ چنانچہ اس کی نشان دہی پر وہ تابوت نکالا گیا اور اسے لے کر چلے تو راستہ روز روشن کی طرح صاف تھا۔ (شوکانی) فقلتہ تبعا للمفسرین و فیہ نکارۃ واللہ اعلم (ابن کثیر) اس جگہ ” اکثرھم“ سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو فرعون سے نسبت رکھتے تھے نہ کہ صرف وہ لوگ جو لشکر میں اس کے ساتھ سمندر پر پہنچے تھے کیونکہ وہ تو سب کے سب غرق ہوگئے تھے اور ان میں سے کوئی شخص بھی ایمان نہیں لایا تھا (شوکانی)