سورة البقرة - آیت 284

لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، تم اسے ظاہر کرو، یا پوشیدہ رکھو ہر حال میں اللہ جاننے والا ہے۔ وہ تم سے ضرور اس کا حساب لے گا۔ اور پھر یہ اسی کے ہاتھ ہے کہ جسے چاہے بخش دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ ہر بات پر قادر ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4 اس سے معلوم ہوا کہ خیالات پر بھی محاسبہ ہوگا مگر ان سے مراد وہ خیالات ہیں جن پر انسان کو اختیا رہو اور جنہیں وہ دل میں جاگزیں کرلے اور جو خیالات انسان کی طاقت اور اختیار سے باہر ہوں اور ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے تو ان پر محاسبہ نہ ہوگا جیسا کہ اگلی آیت : İ لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُĬ۔ الخ میں ہے حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب آیت İ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ۔۔۔Ĭ نازل ہوئی تو صحابہ پر گراں گزری اور انہوں نے آنحضرت (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ہم نماز، روزہ وغیرہ اعمال بجا لا رہے ہیں اس آیت کے مطابق تو بڑی مشکل پڑے گی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کیا تم بھی پہلے اہل کتاب کی طرح سمعنا وعصینا کہنا چاہتے ہو بلکہ تم یوں کہوİ سَمِعۡنَا وَأَطَعۡنَاۖ غُفۡرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيۡكَ ٱلۡمَصِيرُ ۔Ĭ جب صحا بہ نے اس کا اقرار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت : İ آمَنَ الرَّسُولُ ۔۔ Ĭنازل فرمائی اور آیت : İ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ Ĭ۔ کو منسوخ کردیا اور جب اگلی آیتİ لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ ۔۔۔۔ الخ Ĭنازل فرمائی تو اس کے ہر دعا ئیہ جملہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے’’ قَدْ فَعَلْتُ ‘‘(میں نے ایسا کردیا) فرمایا۔ (احمد۔ مسلم) واضح رہے کہ یہاں دوسری آیت سے پہلی کے منسوخ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پہلی آیت میں جو ابہام تھا اس کی وضاحت فرما دی۔ حافظ ابن القیم لکھتے ہیں کہ صحا بہ کرام نسخ کا لفظ وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا میرے لیے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کو وہ خیالات اور وساویس معاف کردیئے ہیں جو ان کے دلوں میں آئیں تاوقتیکہ انکو زبان پر نہ لائیں یاان پر عمل نہ کریں۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) ف 5 یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم بعض انبیاء کو مانتے ہوں اور بعض کا انکار کرتے ہوں بلکہ ہم تمام انبیا کو مانتے ہیں۔