سورة النور - آیت 33

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جو لوگ نکاح کا مقدور نہیں رکھتے انہیں چاہیے، ضبط کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں صاحب مقدور کردے۔ اور تمہارے زیر دستوں (یعنی غلاموں) میں سے جو لوگ آزادی کانوشتہ چاہیں اور تم دیکھو ان میں اس کی صلاحیت بھی ہے تو ان سے نوشتے کا معاملہ ضرور کرلو۔ اور چاہیے کہ اللہ کے مال میں سے جو اس نے دے رکھاے ان کی مدد بھی کرو۔ اور اپنی لونڈیوں کو جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں محض دنیا کے فائدے کے لیے مایوس نہ ہوں اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے (٢١)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

6۔ مکاتب اس غلام یا لونڈی کو کہتے ہیں جس کا مالک اس سے کہتا ہے، اگر تم اتنا مال اتنی قسطوں میں ادا کر دو گے تو میں تمہیں آزاد کر دونگا۔7۔ یعنی اپنی زکوٰۃ و صدقات سے ان کی مدد کرو تاکہ وہ آزادی حاصل کرسکیں۔8۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر لونڈیاں خود پاکدامن نہ رہنا چاہیں تو ان سے حرام کاری کرائی جاسکتی ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اپنی مرضی سے حرامکاری کریں گی تو اس کی ذمہ داری ان پر ہوگی اور وہ خود مجرم ہوں گی، لیکن اگر مالک ان سے زبردستی حرامکاری کرائے گا تو اللہ کے ہاں بھی اور قانون کی نظر میں بھی مجرم ان کا مالک ہوگا۔ خود ان پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ راس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی سیکہ اور امیہ نامی دو لونڈیاں تھیں جن سے وہ زبردستی حرامکاری کراتا تھا۔ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکایت کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر)