وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور (دیکھو) تم میں جو لوگ بزرگی رکھنے والے اور صاحب مقدرت ہیں وہ ایسا نہ کریں کہ رشتے داروں، مسکینوں اور راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کی مدد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں۔ انہیں چاہیے کہ ان کے قصور بخش دیں (اور ان کی کوتاہیوں سے) در گرزکریں۔ کیا تم نہیں چاہتے اللہ تمہارے قصور بخش دے؟ اللہ تو بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے (١٣)
ف3۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی یا اسے ہوا دی، ان میں ایک شخص مسطح بن اثاثہ تھا جو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خالہ زاد بہن کا بیٹا تھا اور چونکہ غریب اور اللہ کی راہ میں مہاجر تھا اس لئے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کی کفالت اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ جب اوپر کی آیات میں عائشہ (رض) کی برأت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ سے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسے سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا۔ ” واللہ ہم ضرور چاہتے ہیں کہ اے رب ہمارے تو ہماری خطائوں کو معاف فرما دے“۔ چنانچہ آپ (رح) نے مسطح کی پھر سے مدد کرنا شروع کردی اور فرمایا۔ اللہ کی قسم ! اب میں کبھی اس کی مدد سے ہاتھ نہیں کھینچونگا“۔فَلِهَذَا كَانَ الصِّدِّيقُ هُوَ الصَّدِّيقُ (رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَنْ بِنْتِهِ )(ابن کثیر)