سورة البقرة - آیت 273

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

حیرات تو ان حاجت مندوں کا حق ہے جو (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہوکر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کام کے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہو کر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کا مکے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (معیشت کی ڈھونڈھ میں) نکلیں اور دوڑ دھوپ کریں (پھر باوجود فقر و فاقے کے ان کی خود داری کا یہ حال ہے کہ) ناواقف آدمی دیکھے، تو خیال کرے انہیں کسی طرح کی احتیاج نہیں۔ تم ان کے چہرے دیکھ کر ان کی حالت جان لے سکتے ہو، لیکن وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کبھی سوال کرنے والے نہیں۔ اور (یاد رکھو) تم جو کچھ بھی نیکی کی راہ میں خرچ کرو گے تو اللہ اس کا علم رکھنے والا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ ان سے مراد اصحاب صفہ ہیں۔ (شوکانی) مگر آیت اپنے عموم کے اعبتار سے ان سب فقرا کو شامل ہے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں اور آیت کا منشا یہ ہے کہ صدقہ وخیرات کے اولین یہ لوگ ہیں یعنی مجاہدین اور علم دین کے طالب علم۔ (ابن کثیر۔ وحیدی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ فی زمانہ ماننا جو لوگ علم دین کی نشر واشاعت کے لیے وقف ہوچکے ہیں اگر ان کے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو تو ان کی مدد کی جائے۔ (موضح بتصرف) الحافا۔ یعنی وہ لپٹ کر سوال نہیں کرتے جیسا کہ بھکاریوں کی عادت ہے اور یہ عادت بہت بری ہے۔ (رازی۔ وحیدی) یہ جملہ دراصل تعفف (سوال نہ کرنا) کی تفسیر ہی ہے۔ علمائے تفسیر نے اس کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ وہ بالکل سوا ہی نہیں کرتے (روح) ایک حدیث میں ہے مسکین وہ نہیں ہے جو لقمہ اور دو لقموں کے لیے دربدر پھرتا رہتا ہے بلکہ اصل مسکین وہ ہے جو لوگوں سے لپٹ کو سوال نہیں کرتا۔ نیز احادیث میں نے حاجت سوال کی بڑی مذمت آئی ہے چنانچہ ایک حدیث کے ضمن میں ہے جس کے پاس دوپہر یارات کا کھانا ہے پھر وہ لوگوں سے سوال کرتا ہے تو وہ دوزخ کے انتارے سمیٹتا ہے۔ ( ابو داؤد)