سورة المؤمنون - آیت 68

أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُم مَّا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر (انہیں کیا ہوگا ہے؟) کیا انہوں نے اس بات پر (یعنی قرآن پر) غور نہیں کیا؟ یا ان کے سامنے کوئی ایسی عجیب بات آگئی ہے جو ان کے اگلے بزرگوں کے سامنے نہیں آئی تھی؟

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف6۔ پس یہاں ” ٱلۡقَوۡلَ “ سے مراد قرآن ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ہےİأَفَلَا ‌يَتَدَبَّرُونَ ٱلۡقُرۡءَانَۚĬ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے۔ (نساء :82) یعنی اگر غور کرتے تو صاف معلوم ہوجاتا کہ قرآن سچی کتاب۔ ف7۔ یعنی قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں ہے بلکہ اس میں وہی باتیں ہیں جو اللہ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر زمانہ میں لاتے رہے ہیں۔ یہاں ” ءَابَآءَهُمُ ٱلۡأَوَّلِينَ “ سے مراد پہلی امتیں ہیں۔ کیونکہ عربوں کے آباء کے متعلق تو تصریح موجود ہے کہ ان کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ (یٰس :6)