فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
پس ہم نے نوح کی طرف وحی بھیجی کہ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا، پھر جب ایسا ہوا ہو کہ ہمارے حکم کا وقت آجائے اور تنور کے شعلے بھڑک اٹھیں (یعنی ظہور نتائج کا معاملہ پختہ ہوجائے) تو کشتی میں ہر جانور کے دو دو جوڑے ساتھ لے لے اور اپنے گھر والوں کو بھی، مگر گھر کے ایسے آدمی کو نہیں جس کے لیے پہلے فیصلہ ہوچکا۔ اور دیکھ جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے بارے میں ہم سے کچھ عرض معروض نہ کیجیو، وہ ڈور کر رہیں گے۔
ف2۔ جمہور مفسرین (رح) کے نزدیک یہی آگ کا تنور مراد ہے اور بعض نے مطلق وجہ ارض مراد لیا ہے۔ (ہود :40) ف3۔ یعنی اپنے گھروالوں کو بھی۔ ف4۔ کہ وہ ایمان نہ لائیں گے اور ہلاک ہوں گے۔ مراد ہیں حضرت نوح ( علیہ السلام) کی بیوی اور ان کا بیٹا۔ واللہ اعلم۔ (ابن کثیر) ف5۔ یعنی مجھ سے ان کے بچانے کے لئے سفارش نہ کرنا۔