فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ
اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی وہ یہ سن کر (لوگوں سے) کہنے لگے یہ آدمی کے سوا کیا ہے کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہے؟ مگر چاہتا ہے تم پر اپنی بڑائی جتائے، اگر اللہ کو کوئی ایسی ہی بات منظور ہوتی تو کیا وہ فرشتے نہ اتار دیتا؟ (وہ ہماری ہی طرح کے ایک آدمی کو اپنا پیام بر کیوں بنانے لگا؟) ہم نے اپنے اگلے بزرگوں سے تو کوئی ایسی بات کبھی نہیں سنی۔
ف13۔ گویا حضرت نوح ( علیہ السلام) کے (ٱعۡبُدُواْ ٱللَّهَ) پر طعن ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ اسی ایک کی عبادت کی جائے تو کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتا۔ یہاں ” شَآءَ “ فعل کا مفعول محذف ہے اور ” لَأَنزَلَ “ جواب ” لو“ ہے یعنی لو شاء اللہ عبادتہ وحدہٗ لا نزل ملائکۃ۔ ف14۔ کہ کسی بشر نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا توحید کی طرف دعوت دی ہو۔ یہ دوسرا اعتراض ہے۔