سورة الحج - آیت 60

ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(بہرحال) حقیقت حال یہ ہے، پس جس کسی نے خود زیادتی نہیں کی، بلکہ جتنی سختی اس کے ساتھ کی گئی تھی ٹھیک اتنی ہی بدلے میں کرنی چاہیے اور پھر دشمن مزید زیادتی پر اتر آیا تو ضروری ہے کہ اللہ مظلوم کی مدد کرے، اللہ یقینا معاف کردینے والا بخش دینے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

8۔ یعنی مظلوم کے ظالم سے اپنا بدلہ لینے کے بعد، پھر ازسرنو ظالم سے اس پر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی ضرور مدد فرمائے گا کیونکہ مظلوم کی مدد کرنا اس کا قاعدہ ہے جیساکہ حضرت انس (رض) سے صحیح روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : اتقوا دعوۃ المظلوم وان کان کافرا فانھا لیس بینھما حجاب۔ کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرو چاہے وہ کافر ہو اس لئے کہ اس کے ( اور اللہ کے) درمیان پردہ نہیں ہے۔ (الجامع الصغیر) مقصد یہ ہے کہ مسلمان مظلوم ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کا وعدہ فرمایا ہے۔ (قرطبی) 1۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ بندوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنانے کی کوشش کریں اور اپنے ذاتی معاملات میں عفو ودرگزر کی عادت ڈالیں۔ اور متعدد آیات میں عفو کی ترغیب دی ہے اور اسے ” ان ذلک لمن عزم الامور“ فرمایا ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : یعنی بدلہ واجبی لینے والے کو خدا عذاب نہیں کرتا اگرچہ بدلہ نہ لینا بہتر تھا۔ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں نے بدلہ لیا، کافروں کی ایذا کا پھر ” احد“ و ” احزاب“ میں کافر زیادتی کرنے کو آئے، پھر اللہ نے پوری مدد کی۔“ (موضح)