الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
یہ وہ مظلوم ہیں جو بغیر کسی حق کے اپنے گھروں سے نکال دیے گئے، ان کا کوئی جرم نہ تھا، اگر تھا تو صرف یہ کہ وہ کہتے تھے ہمارا پروردگار اللہ ہے، اور دیکھو اگر اللہ بعض آدمیوں کے ہاتھوں بعض آدمیوں کی مدافعت نہ کراتا رہتا (اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ظلم و تشدد کرنے کے لیے بے روک چھوڑ دیتا) تو کسی قوم کی عبادت گاہ زمین پر محفوظ نہ رہتی۔ خانقاہیں، گرجے، عبادت گاہیں، مسجدیں، جن میں اس کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے سب کبھی کے ڈھائے جاچکے ہوتے۔ (یاد رکھو) جو کوئی اللہ (کی سچائی) کی حمایت کرے گا ضروری ہے کہ اللہ بھی اسکی مدد فرمائے۔ کچھ شبہ نہیں وہ یقینا قوت رکھنے والا اور سب پر غالب ہے۔
2۔ یعنی تارک الدنیا عیسائی راہبوں کی خانقاہیں۔3۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہر زمانے میں مشرکوں کے غلبہ کو روکا اور انبیا ( علیہ السلام) اور مومنوں کو قتال کی اجازت اور حکم دے کر ان کی مدافعت کی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو یہ مشرک حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ میں یہودیوں کے عبادت خانوں کو، حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانے میں گرجوں اور خانقاہوں کو اور اب محمدﷺ کے زمانہ میں مسجدوں کو مسمار کر ڈالتے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے اور ان کو مسمار نہ کیا جائے۔ (قرطبی۔ شوکانی) 4۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کے دین کو فروغ دینے کی کوشش کرے۔