سورة الحج - آیت 25

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور جو اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں نیز مسجد حرام سے جسے ہم نے بلا امتیاز تمام انسانوں کے لیے (عبادت گاہ) ٹھہرایا ہے، خواہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے (تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم انہیں) اور ہر اس آدمی کو جو اس میں ازراہ ظلم حق سے منحرف ہونا چاہے گا عذاب دردناک کا مزہ چکھائیں گے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 8۔ خدا کی راہ سے مراد اسلام اور چھی راہ سے مراد جنت ہے۔ ف 9۔ مراد ہیں کفار مکہ جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو حج اور عمرہ سے روکا تھا۔ ف 10۔ یعنی دونوں وہاں بلامزاحمت عبادت کرسکتے ہیں اور کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ دوسرے کو اس میں آکر عبادت کرنے سے منع کرے۔ ایک حدیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ رات اور دن کے اوقات میں جب بھی کوئی چاہے بیت اللہ میں نماز پڑھ سکتا ہے اور اس کا طواف کرسکتا ہے۔ مسجد حرام کی اس حیثیت پر سب کا اتفاق ہے لیکن اختلاف اس بارے میں ہے کہ آیا یہی حکم کہ زمینوں اور مکانوں کے لئے بھی ہے؟ اکثر صحابہ اور بعد کے اہل علم کے نزدیک ان کے لئے وہ حکم نہیں ہے جو مسجد حرام کے لئے ہے بلکہ دوسرے شہروں کی طرح مکہ میں بھی ہر شخص اپنے مکان اور زمین کا مالک ہے اور وہ دوسرے کو بلا کرایہ اترنے اور ٹھہرنے سے منع کرسکتا ہے۔ ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی (رح) کی یہی رائے ہے اور امام مالک (رح) اور ابو حنیفہ (رح) اور بعض دوسرے اہل علم کے نزدیک مکہ کے مکانوں اور زمینوں کا بھی وہی حکم ہے جو مسجد حرام کا ہے یعنی کوئی شخص نہ تو اپنا مکان بیچ سکتا ہے اور نہ کرایہ وصول کرسکتا ہے اور انہوں نے بعض روایات کے علاوہ اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے زمانہ خلافت میں ہم سب کی زمینیں سوائب (شاملات) تصور کی جاتی تھیں۔ امام احمد (رض) نے ایک درمیانی راہ اختیار کی ہے کہ مکہ کے مکانوں کی ملکیت تو ہوگی مگر انہیں کرایہ پر نہ دیا جائے گا۔ (شوکانی، ابن کثیر) ف 11۔ ” ٹیڑھی راہ“ کا لفظ عام ہے اس سے مراد شرک و بدعت بھی ہے اور گناہ کا ہر مراسم بھی حتیٰ کہ حرم کے جانوروں کو متانا، اس کے درختوں کو کاٹنا اور جھوٹی قسم کھانا بھی اس میں شامل ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ حرم میں گناہ کا قصد کرنا بھی حرام اور موجب سزا ہے۔ (شوکانی بحوالہ بخاری)