سورة الحج - آیت 15

مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو آدمی (مایوس ہوکر) ایسا خیال کر بیٹھتا ہے کہ اللہ دنیا اور آکرت میں اس کی مدد کرنے والا نہیں تو (اس کے لیے زندگی کی کوئی راہ باقی نہ رہی) اسے چاہیے ایک رسی چھت تک لے جاکر باندھ دے، اور (اس میں گردن لٹکا کر زمین سے) رشتہ کاٹ لے، پھر دیکھے اس تدبیر نے اس کا غم و غصہ دور کردیا یا نہیں؟

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرتا رہے گا۔ اگر کافروں کو اس پر غصہ اور جلن ہے تو اس غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی بس ایک ہی صورت ہے کہ چھت سے رسی باندھ کر پھانسی میں لٹک کر مرجائیں یا مطلب یہ ہے کہ کافروں کو چاہیے کہ کسی ذریعے سے آسمان پر چلے جائیں اور وہاں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو مدد یا وحی آرہی ہے اسے منقطع کرنے کی کوشش کریں۔ آیت کے یہ دونوں مطلب اسی صورت میں کہ ولن ینصرہ میں ” ہ“ کی ضمیر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قرار دی جائے لیکن اگر یہ ضمیر خود اس شخص کے لئے ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ … مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی کوئی تدبیر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تبدیل نہیں کرسکتی اور اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں ان مردہ یا زندہ شخصیتوں کو جنہیں تم پکارتے ہو کوئی دخل نہیں۔