وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
اور (دیکھو) ہم نے (سمندر کی) تند ہواؤں کو بھی سلیمان کے لیے کیسا مسخر کردیا تھا کہ اس کے حکم پر چلتی تھیں اور اس سرزمین کے رخ پر جس میں ہم نے بڑی ہی برکت رکھ دی ہے (یعنی فلسطین اور شام کے رخ پر جہاں بحر احمر اور بحر متوسط سے دور دور کے جہاز آتے تھے) اور ہم ساری باتوں کی آگاہی رکھتے ہیں۔
ف 9۔ اس کی تفسیر میں حجرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے ایک تخت تیار کرایا تھا جس میں مع اعیان سلطنت بیٹھ جاتے اور ضروری سامان بھی رکھ لیتے پھر ہوا آتی اور اسے اڑالے جاتی۔ جب وہ چاہتے ہوا تیز چلتی اور جب چاہتے دھیمی۔ صبح سے زوال تک وہ ایک ماہ کی مسافت اور زوال سے شام تک ایک ماہ کی مسافت طے کرتی۔ نیز دیکھئے سورۃ سبا آیت 211 اور سورۃ ص آیت 53 تا 63 (فتح القدیر)