فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ
پس ہم نے سلیمان کو اس بات کی پوری سمجھ دے دی اور ہم نے حکم دینے کا منصب اور (نبوت کا) علم ان میں سے ہر ایک کو عطا فرمایا تھا، نیز ہم نے پہاڑوں کو داؤد کے لیے مسخر کردیا تھا، وہ اللہ کی پاکی کی صدائیں بلند کرتے تھے اور اسی طرح پرندوں کو بھی، اور ہم (ایسا ہی) کرنے والے تھے۔
ف 5۔ اس واقعہ کی تفصیل مفسرین نے عموماً یہ بیان کی ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) اور سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس دو آدمی مقدمہ لے کر آئے۔ ایک کہنے لگا کہ اس شخص کی بکریاں رات کے وقت میرے کھیت میں گھس کر ساری کھیتی چرگئی ہیں۔ حضرت دائود نے نقصان اور بکریوں کی قیمت کا اندازہ لگا کر فیصلہ دیا کہ تم اس کی بکریاں لے لو۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا اور کہا کہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں کہ ان کے دودھ وغیرہ سے اپنا گزارہ کرے اور بکریوں والے کو کھیت سپرد کردیا جائے کہ آبپاشی وغیرہ سے اس کی اصلاح کرے۔ یہاں تک کہ جب کھیت اپنی پہلی حالت پر آجائے تو کھیت اور بکریاں اپنے اپنے مالکوں کو واپس کردئیے جائیں۔ اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے کہ ہم نے اس مقدمہ اک ٹھیک فیصلہ سلمان ( علیہ السلام) کو سمجھ دیا۔ (ابن کثیر، کبیر) مسئلہ : اگر کسی کے جانور دن کے وقت کسی دوسرے کے کھیت یا باغ کو چر جائیں تو جانور والے پر کوئی تاوان نہیں ہے اور اگر رات کے وقت چرجائیں تو جس قدر نقصان ہوا اس قدر تاوان جانور والے کے ذمہ ہوگا۔ یہی فیصلہ حضرت براء (رض) بن عازب نے ایک صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے اور جمہور علما کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ امام ابو حنیفہ (رح) اور دیگ فقہائے کوفہ جانور والے پر کسی صورت تاوان کے قائل نہیں اور دلیل میں ” العجماء جرحھا جبار“ جانور کا کسی کو زخمی کردینا معاف ہے۔ پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس حدیث میں صرف زخم کے معاف ہونے کا ذکر ہے کھیت کے نقصان کے معاف ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا حضرت براء (رض) کی حدیث کو منسوخ کہا جائے۔ (قرطبی) اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ اگر کوئی ھاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس کا فیصلہ غلط ہو تو اسے اکہرا اجر ملے گا اور اگر فیصلہ صحیح ہو تو دوہرا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں عمرو بن عاص کی روایت میں ہے۔ (فتح قدیر) ف 6۔ یعنی جب وہ تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی تسبیح کرتے۔ یہ چیز حضرت دائود پر خصوصی نعمت کے سلسلے میں ذکر کی ہے لہٰذا تسبیح کو اس کے حقیقی معنی پر محول کرنا ضروری ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت دائود کے ساتھ، زبور پڑھنے کے وقت پہاڑ اور جانور بھی انہی کی سی آواز سے پڑھتے۔ (موضح) ف 7۔ یعنی تعجب نہ کرو کہ یہ پہاڑ اور پرندے کیسے بولتے اور تسبیح کرتے تھے۔ یہ سب کچھ ہمارا کیا ہوا تھا۔ (کبیر)