سورة الأنبياء - آیت 28

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ پیچھے چھوڑ آئے (یعنی ان کا ماضی بھی اور مستقبل بھی) سب اللہ جانتا ہے، ان کی مجال نہیں کہ کسی کو اپنی سفارش سے بخشوا لیں مگر ہاں جس کسی کی بخشش اللہ پسند فرمائے اور وہ تو اس کی ہیبت سے خود ہی ڈرتے رہتے ہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6 یعنی جو کام وہ پہلے کرچکے ہیں، یا جو آئندہ کرینگے وہ ان سب کو جانتا ہے کہ کذا قال ابن عباس (قرطبی) اس میں ان کے مطیع و منقاد ہونے کی علت کی طرف اشارہ ہے یعنی چونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم ان کے ظاہر و باطن کو محیط ہے اس لئے اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ (کبیر). ف 7 یعنی جن کے لئے سفارش کرنے کی اللہ تعالیٰ اجازت دے، مردا اہل توحید ہیں۔ یہاں سفارش کرنیوالوں سے فرشتے بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ نظم قرآن کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے اور صحیح مسلم میں اس کی تائید میں ایک حدیث بھی ہے اور انبیاء بھی جیسا کہ حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے یہ آیت تلاوت کی اور پھر فرمایا (إِنَّ ‌شَفَاعَتِي ‌لِأَهْلِ ‌الْكَبَائِرِ ‌مِنْ ‌أُمَّتِي)کہ میں اپنی امت کے گہنگاروں کی سفارش کروں گا۔ (شوکانی)