وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جو لوگ تم میں سے وفات پائیں اور اپنے پیچھے بیوہ عورتیں چھوڑ جائیں اور (مرنے سے پہلے اس طرح کی) وصیت کرجائیں کہ برس دن تک انہیں نان و نفقہ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں اور پھر ایسا ہو کہ وہ (اس مدت سے پہلے) گھر چھوڑ دیں (اور دوسرا نکاح کرلیں یا نکاح کی بات چیت کریں) تو جو کچھ وہ جائز طریقہ پر اپنے لیے کریں، اس کے لیے تم پر کوئی گناہ عائد نہ ہوگا (کہ تم انہیں وصیت کی تعمیل کے خیال سے روکو اور سال بھر تک سوگ منانے پر مجبور کرو) یاد رکھو، اللہ سب پر غالب اور (اپنے ہر کام میں) حکمت رکھنے والا ہے
ف 2İ وَصِيَّةٗ لِّأَزۡوَٰجِهِمĬ۔ یعنی جو لوگ وفات پاجائیں ان کی بیویوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ وصیت کی ہے یا مرنے سے قبل ان کو چاہیے کہ وصیت کر جائیں۔ ’’ای اوصی اللہ وصیتہ اوفلیو صو اوصیتہ۔( شوکانی) ابتدا میں یہ حکم تھا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے۔ اسے ایک سال کے لیے شوہر والے مکان میں سکونت پذیر رہنے کے لیے حقوق حاصل ہیں اور اس مدت کے پورے مصارف متوفیٰ کے اولیاء کے ذمہ ہوں گے۔ ہاں اگر بیوی چاہے تو سال پورا ہونے سے پہلے رخصت ہو سکتی ہے اس صورت میں اولیاء قصوروار نہ ہوں گے اکثر علما کے نزدیک یہ دونوں حکم (نفقہ سنۃ وسکنی) ہی منسوخ ہیں سورت نساء آیت میراث 12 سے ایک سال کے مصارف اورحق سکونت کا وجوب منسوخ ہوگیا اوپر کی آیت 234 میں متوفی عنہا کی عدت چارماہ دس دن او رسورت طلاق آیت 4 میں حاملہ کی عدت وضع حمل قرار پانے کے بعد ایک سال کی عدت بھی منسوخ ہوگئی۔ اب متوفی عنہا کے لیے لازم ہے کہ آیت 234 کے مطابق شوہر والے مکان میں چا رماہ دس دن عدت گزارے یا اگر حاملہ ہے تو وضع حمل تک اسی مکان میں رہے جیسا کہ آنحضرت (ﷺ) نے حضرت ابو سعید خدری کی بہن فریعة بنت مالک کو اس کے شوہر کی وفات کے بعد حکم دیا تھا کہ(امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ)۔ اور بعد میں حضرت عثمان (رض) نے ایک مقدمہ میں اس حدیث کے مطابق فیصلہ بھی فرمایا۔ (ابن کثیر، شوکانی۔ بحوالہ سنن اربعہ ومؤطامالک)