يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا
وہ آپس میں چپکے چپکے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے ہم (اس حالت میں یعنی پہلی اور دوسری زندگی کی درمیانی حالت میں) ہفتہ عشرہ سے زیادہ کیا رہے ہوں گے؟
ف 3 یعنی دہشت کے مارے وہ اپنی دنیا کی زندگی اور قبر (برزخ) کی زندگی دونوں کو بہت مختصر خیال کریں گے۔ دوسری آیت میں ہے : بشنا یوماً او بعض یوم کہ ہم ایک دن بلکہ دن کا بھی ایک حصہ رہے ہوں گے۔ ( مومنون 113) اور سورۃ روم میں ہے، یقیم المجرمون مالبثوا غیر ساعت مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم (موت کی حالت میں) ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ (آیت :55) اسی مضمون کی توضیح اگلی آیت بھی کر رہی ہے بعض نے ” عسراً“ سے دس گھڑیاں بھی مراد لی ہیں۔ (شوکانی ۔ رازی) اور ان تمام اقوال سے ان کا مقصد یہ ہوگا کہ کسی طرح ہم عذاب سے بچ جائیں اور ہم پر گرفت نہ ہو۔ (ابن کثیر)