سورة طه - آیت 94

قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہارون بولا اے میرے عزیز بھائی ! میری ڈاڑھی اور سر کے بال نہ نوچ ( میں نے اگر سکتی میں کمی کی تو صرف اس خیال سے کہ) میں ڈرا کہیں تم یہ نہ کہو تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے حکم کی راہ نہ دیکھی۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 8 جمہور مفسرین کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام)حضرت ہارون کے سگے بھائی تھے لیکن ہارون نے شفقت کے طور پر انہیں ” اے میری ماں کے بیٹے“ کہہ کر پکارا تاکہ انہیں رحم آئے اور ان کے دل میں نرمی پیدا ہو۔ خصوصاً جبکہ ان کی والدہ جیسا کہ کہا جاتا ہے ایک باایمان خاتون تھیں۔ (شوکانی) ف 9 بات سے مراد حضرت موسیٰ کی یہی وصیت ہے جس کا اوپر ” أَمۡرِي “ کے تحت ذکر ہوا، اس کا (یعنی وَلَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِي) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تو نے میری ہدایت اور واپسی کا انتظار نہ کیا۔ یہاں حضرت ہارون کا صرف اتنا جواب بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ اعراف میں ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہاİإِنَّ ٱلۡقَوۡمَ ٱسۡتَضۡعَفُونِي وَكَادُواْ يَقۡتُلُونَنِيĬ یعنی قوم نے مجھے کمزور پا کر بے بس کردیا تھا اور قریب تھا کہ مجھے جان سے مار ڈالتے۔ (آیت :150)