حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
اور (دیکھو) اپنی نمازوں کی حفاظت میں کوشاں رہو۔ خصوصاً ایسی نماز کی جو (اپنے ظاہر و باطن میں) بہترین نماز ہو اور اللہ کے حضور کھڑے ہو کہ ادب و نیاز میں ڈوبے ہوئے ہو
ف 7 ٱلصَّلَوٰةِ ٱلۡوُسۡطَىٰ۔’’ بیچ والی نماز‘‘ اس کی تعیین میں گواہل علم کے مابین اختلاف ہے مگر جمہور علماکے نزدیک اس سے عصر کی نماز مراد ہے یہی اضح اور ارجح ہے۔ متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ صحیحین اور سنن کی کتابوں میں متعدد صحابہ سے یہ روایت ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے غزوہ احزاب کے موقعہ پر فرمایا :( شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى; صَلَاةِ الْعَصْرِ، مَلَأَ اللهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا)۔ کہ انہوں نے ہمیں صلوٰة وسطی یعنی عصر کی نما سے غافل کردیا، اللہ تعالیٰ ان کی قبروں اورگھروں کو آگ سے بھر دے نیز بہت سے آثار صحابہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 8 اور ادب سے کھڑے رہو۔ یعنی نماز میں کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو نماز کی حالت کے منافی ہوجیسے کھانا پینا اور کلام وغیرہ۔ عر بی زبان میں’’ قنوت‘‘ کے کئی معنی آئے ہیں مگر یہاں سکوت کے معنی میں ہے۔ صحیحین میں زید بن ارقم سے روایت ہے کہ ہم نماز میں گفتگو کرلیتے تھے پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو کلام کرنا منسوخ ہوگیا اور ہمیں سکوت کا حکم دیا گیا۔ (ابن کثیر )