وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اور جب ایسا ہوا کہ تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دے اور ان کی (عدت کی) مدت پوری ہونے کو آئے تو پھر (تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو (طلاق سے رجوع کرکے) انہیں ٹھیک طریقے پر روک لو، یا (آخری طلاق دے کر) ٹھیک طریقے پر جانے دو۔ ایسا نہ کرو کہ انہیں نقصان پنچانے کے لیے روکے رکھو، تاکہ ان پر جور و ستم کرو (یعنی نہ تو رجوع کرو۔ نہ جانے دو۔ بیچ میں لٹکائے رکھو) اور یاد رکھو جو کوئی ایسا کرے گا تو اپنے ہاتھوں خود اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور دیکھو، ایسا نہ کرو کہ اللہ کے حکموں کو ہنسی کھیل بنا لو ( کہ آج نکاح کیا۔ کل بلاوجہ طلاق دے دی) اللہ کا اپنے اوپر احسان یاد کرو۔ اس نے کتاب و حکمت میں جو کچھ نازل کیا ہے اور اس کے ذریعے تمہیں نصیحت کرتا ہے، اسے نہ بھولو، اور اللہ سے ڈرو، اور یاد رکھو کہ اس کے علم سے کوئی بات باہر نہیں۔
ف 3 ایعنی اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق رجعی دو، ان کی عدت پوری ہونے سے پہلے تمہیں رجوع کا حق پہنچتا ہے مگر یہ رجوع محض ان کوستانے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ ہو کیونکہ ایسا کرناظلم وزیادتی اور احکام الہی سے مذاق کرنا ہے ،۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مذاق مذاق میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :İ ای وَلَا تَتَّخِذُوٓاْلخĬ مگر آنحضرت (ﷺ) نے اس طلاق کو نافذ فرمادیا۔ (ابن کثیر) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ تین چیزوں میں مذاق بھی سنجیدگی قرار پائیگی یعنی نکاح، طلاق۔ اور رجوع، (ابن کثیر بحوالہ جامع ترمذی) ف 4 یہاں الْحِكْمَةسے مراد سنت ہے یعنی کتاب وسنت کی جو نعمت تم پر نازل کی ہے اسے مت بھو لو، یہ دونوں وحی الہی میں اور دلیل ہونے میں دونوں برابر ہیں لہذا منکر حدیث کا بھی وہی حکم ہے جو منکر قرآن کا ہے۔(ترجمان) مطلب یہ ہے کہ ان آیات میں بیان کردہ عائلی مسائل کو حدیث پاک کی روشنی میں زیر عمل لانا ضروری ہے۔ (م، ع)