سورة مريم - آیت 78

أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ جو ایسا کہتا ہے تو کیا اس نے غیب کو جھانک کے دیکھ لیا ہے؟ یا خدا سے کوئی عہد لے لیا ہے کہ اسے ایسا کرنا ہی پڑے گا؟

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 7 اوپر کی آیات میں صحت حشر کے دلائل بیان فرمائے اور ان ن کے شبہات کا ازالہ فرمایا اب ان کا قوال نقل فرمایا جو حشر میں طعن کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑاتے تھے صحیحین میں ہے کہ حضرت خباب بن ادت لوہار کا کام کرنے تھے اور ان کا عاص بن وائل (ایک ملدار کافر) پر کچھ قرض تھا۔ وہ ایک روز) تقاضے کے لئے اس کے پاس گئے کافر کہنے لگا ” میں تمہارا قرض اس وقت تک ادا نہ کروں گا جب تک تم محمد (ﷺ) کی رسالت سے انکار نہ کر دو“ خباب نے کہا ” اللہ کی قسم میں محمد ﷺ کی رسالت سے ہرگز انکار نہ کروں گا یہاں تک کہ تم مر کر دوبد“ زندہ ہوجائو ” کافر کہنے لگا“ جب میں مر کر دوبارہ زندہ ہوں گا تو تم میرے پاس آنا، اس وقت میرے پاس خوب مال بھی ہوگا اور اولاد بھی میں تمہارا قرض ادا کردوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ چار آیات فرداً تک نازل فرمائیں۔ پہلی آیت میں اس کے طعن کو نقل فرمایا اور پھر ” اطلع الغیب سے اس کے استہزا کا جواب دیا۔ (کبیر) ف 8 یعنی یہ بات ” کہ وہ جنت میں جائے گا اور واں دولت پائے گا تو ہہی کرسکتا ہے جس نے علم غیب پر اطلاع پالی ہو یا ” عالم الغیب نے خود اسے اطلاع دے دی ہو۔ (کسیر)