اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
(حالانکہ) حقیقت یہ ہے کہ خود انہی کے ساتھ تمسخر ہورہا ہے کہ اللہ (کے قانون جزا) نے رسی ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے اور سرکشی (کے طوفان میں) میں بہکے چلے جا رہے ہیں
ف 1 :عام محاورے میں ہر برے کام کی جزا یا جواب کو اسی برائی کا نام دے دیا جاتا ہے قرآن مجیدنے کئی مقامات پر یہ محاورہ استعمال کیا ہے چنانچہ اسی محاورہ کے مطابق منافقین کے مکر و فریب اور ہنسی مذاق کے مقابلہ میں جو انھیں مہلت دی اور ان پر فورا گرفت نہ کی اس کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہنسی ٹھٹھہ کرتا ہے مطلب یہ ہے کہ ان منافقین سے ہمارا یہ بر تاؤ اس وجہ سے نہیں ہے کہ ہم ان سے خوش ہیں بلکہ یہ ہمارا غضب ہے اور یہ امہال دراصل ان کے ہنسی مزاح کا بد لہ ہے جو وہ مسلمانوں سے کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی سر کشی میں خوب قدم بڑھا لیں جیسے فرمایا İإِنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا Ĭ (آل عمران آیت 178)۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے استہزا کی یہ صورت آخرت میں پیش آئے گی قرطبی )