حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا ۗ قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا
(اور پچھم کی طرف نکل کھڑا ہوا) یہاں تک کہ (چلتے چلتے) سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا، وہاں اسے سورج ایسا دکھائی دیا جیسے ایک سیاہ دلدل کی جھیل میں ڈوب جاتا ہے اس کے قریب ایک گروہ کو بھی آباد پایا۔ ہم نے کہا اے ذوالقرنین (اب یہ لوگ تیرے اختیار میں ہیں) تو چاہے انہیں عذاب میں ڈالے چاہے اچھا سلوک کرکے اپنا بنا لے۔
ف 4 یعنی وہ مغرب کی جانب پیہم فتوحات کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ خشکی کے اس آخری سرے پر پہنچ گیا جہاں آبادی ختم ہو کر سمندر (بحر محیط) شروع ہوتا ہے ف 5 یعنی وہاں غروب آفتاب کے وقت انہوں نے دیکھا کہ سورج سمندر میں یوں ڈوبتا ہے جیسے وہ کسی کالے پانی کے کنڈ یا گرم چشمے میں ڈوب رہا ہو۔ ف 6 یعنی ان دونوں کو قدرت دی اور یہ قدرت ہر بادشاہ اور حاکم کو ملتی ہے کہ وہ خلق اللہ کو ستاوے یا اپنی خوبی کا ذکر جاری رکھے۔ (کذا فی الموضح) لفظ قُلۡنَا (ہم نے کہا) کی بنا پر بعض مفسرین نے ذوالقرنین کو نبی قرار دیا ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ بات براہ راست بذریعہ وحی خطاب کر کے فرمائی ہو۔ بلکہ یہ ارشاد زبان حال یا اس وقت کے نبی كے واسطہ سے بھی ہوسکتا ہے جیسے فرمایاİ قِيلَ يَٰٓأَرۡضُ ٱبۡلَعِي مَآءَكِ Ĭ (ہود) یا جیسے فرمایاİ فَقُلۡنَا ٱضۡرِبُوهُ بِبَعۡضِهَاĬ (بقرہ) اس لئے اکثر علمائے سلف ذوالقرنین کو نبی نہیں بلکہ خدا پرست اور عادل فرمانروا مانتے ہیں۔ معالم التنزیل)