كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
لڑائی کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے لیکن بہت ممکن ہے ایک بات کو تم ناگوار سمجھتے ہو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ایک بات تمہیں اچھی لگتی ہو اور اسی میں تمہارے لیے برائی ہو۔ اللہ جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے۔
ف 4 آیت میں القتال سے مراد قتل نوع انسانی نہیں بلکہ جہاد ہے اور اسلام میں جہاد سے مقصود اللہ تعالیٰ کے دین کو سربلندی کرنا کفر وشرک کی بیخ کنی کرنا اور مسلمانوں کو کفار کے شر سے بجانا ہے اور امت مسلمہ پر یہ فریضہ قیامت تک عائد رہے گا، حدیث میں ہے کہ میری امت قیامت تک جہاد کرتی رہے گی یہاں تک کہ خیر امت دجال سے جنگ کدے گی اور فتح کے روز آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا کہ اب فتح مکہ کے بعد مدینہ كی طرف ہجرت کی ضرورت نہیں لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔ (ابن کثیر، وحیدی)