وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَىٰ مَا أَنفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
اور پھر (دیکھو) ایسا ہی ہوا کہ اس کی دولت (بربادی کے) گھیرے میں آگئی، وہ ہاتھ مل مل کر افسوس کرنے لگا کہ ان باغوں کی درستی پر میں نے کیا کچھ خرچ کیا تھا ( وہ سب برباد گیا) اور باغوں کا یہ حال ہوا کہ ٹٹیاں گر کے زمین کے برابر ہوگئیں، اب وہ کہتا ہے کہ اے کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔
ف 6 یعنی غرور تکبر کی راہ سے اپنے نفس کی پیروی نہ کرتا بلکہ بھائی کی بات مان لیتا اپنی ساری دولت اور شان و شوکت اللہ ہی کا عطیہ سمجھتا اور مال میں جو دوسروں کے حقوق رکھے گئے ہیں انہیں ادا کرتا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : آخر اس کے باغ کا وہی حال ہوا جو اس کے نیک بھائی کی زبان سے نکلا تھا کہ رات کو آگ لگ گئی، آسمان سے سب جل کر راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔ مال خرچ کیا تھا دولت بڑھانے کو وہ اصل بھی کھو بیٹھا۔ (موضح) ف 7 یہاں یہ مثال ختم ہوئی۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو سمجھانا ہے کہ غریبوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے۔ اصل چیز اللہ پر ایمان اور اس کی راہ میں اخلاص ہے۔