هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
پھر یہ لوگ کس بات کے انتظام میں ہیں؟ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ خدا ان کے سامنے نمودار ہوجائے (اور اس طرح نمودار ہوجائے کہ) بادل اس پر سایہ کیے ہوں اور فرشتے (صف باندھے کھڑے) ہوں اور جو کچھ ہونا ہے ہوچکے؟ (اگر اسی بات کے منتظر ہیں تو یاد رکھیں یہ بات دنیا میں تو ہونے والی نہیں) اور تمام کاموں کا سر رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے
ف 1 رجز وتہدید ہے یعنی یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ یہی ناکہ جو کچھ قیامت میں ہونے والا ہے وہ آج ہی ہوجائے۔ (قرطبی) قیامت کے دن مذکورہ صورت میں اللہ تعالیٰ کا نزول احادیث سے ثابت ہوتا ہے لہذا اللہ تعالیٰ کے دوسرے صفات و افعال اور شوؤن کی طرح اس پر بھی بلا کیف اور بغیر تاویل کے ایمان لانا ضروری ہے۔ سلف صالح کا یہی مسلک ہے متکلمین اور عقل پر ستوں کی تاویلات مذہب اہل حدیث اور سلف امت کے خلاف میں۔ (روح۔ ترجما ن) اور بقول اما رازی اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اس آیت میں یہود کے عقیدہ کی حکایت اور ان کے خیال کی ترجمانی ہے قطع نظر اس سے کہ ان کا یہ خیال غلط ہے یا صحیح اور یہود چونکہ تشبیہ کے قائل تھے لہذا آیت سے اپنے ظاہر معنی پر محمول ہے اور تاویل کی ضرورت نہیں تو بالکل بجا ہے۔ (کبیر)