وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا
ان میں سے جس کسی کو تو اپنی صدائیں سنا کر بہکا سکتا ہے بہکانے کی کوشش کرلے، اپنے لشکر کے سواروں اور پیادوں سے حملہ کر، ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوجا، ان سے (طرح طرح کی باتوں کے) وعدے کر، اور شیطان کے وعدے تو اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ سرتاسر دھوکا۔
ف 2 صورت سے مراد شیطان کا لوگوں کو نافرمانی کی طرف دعوت دینا ہے۔ بعض علمائے سلف نے اس سے مراد گانا بجانا بھی لیا ہے۔ (قرطبی) مال میں شیطان کی شرکت یہ ہے کہ حرام کاموں میں صرف کیا جائے اور بتوں یا پیروں، بزرگوں کی نیاز دی جائے اور اولاد میں شرکت یہ ہے کہ اسے گمراہی اور بداخلاقی کی تعلیم دی جائے یا سمجھا جائے کہ فلاں نے بخشا ہے۔ مشرکین عرب اپنی اولاد کے نام عبدالعزی وعبد الشمس وغیرہ رکھتے اور ہمارے زمانہ میں رسول بخش حسین بخش، پیر بخش، غلام جیلانی وغیرہ مشرکانہ نام رکھے جاتے ہیں۔ (وحیدی بتصرف)