أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا
یہ لوگ جن ہستیوں کو پکارتے ہیں، (اور اللہ کے حضور انہیں وسیلہ تقریب سمجھتے ہیں) وہ تو خود اپنے پروردگار کے حضور (بندگی و اطاعت کے ذڑیعہ سے) وسیلہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ کون اس راہ میں زیادہ قریب ہوتا ہے۔ نیز اس کی رحمت کے متوقع رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ترساں، فی الحقیقت تمہارے پروردگار کا عذاب بڑے ہی ڈرنے کی چیز ہے۔
ف 1 یعنی اس کی عبادت اور اطاعت کر کے وسیلہ (تقرب الٰہی) چاہتے ہیں اور ان کی ساری تگ و دو اسی لئے ہے کہ اس بارے میں کون دوسروں سے آگے نکلتا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ” میرے لئے وسیلہ طلب کرو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ وسیلہ کیا چیز ہے؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ کا تقرب پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (فتح البیان) افسوس کہ آج کل اس امت کے مسلمان بھی اس شرک میں مبتلا ہیں۔ اولیاء و صلحاء امت، پیروں، بزرگوں اور شہیدوں سے وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو مشرکین اپنے بتوں سے رکھتے تھے، ان کو حاجت روا اور صاحب تصرف سمجھتے ہیں اور ان کے نام کی نیازیں دیتے ہیں تاکہ وہ تکالیف کو دور کریں وغیرہ۔ (وحیدی)