أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
تو یقین کرو ایسے ہی لوگ ہیں جنہیں ان کے عمل کے مطابق (دنیا و آخرت کی) فلاح میں حصہ ملنا ہے اور اللہ (کا قانون) اعمال کی جانچ میں سست رفتار نہیں (وہ ہر انسان کو اس کے عمل کے مطابق فورا نتیجہ دینے والا ہے)
ف 1 :(یعنی بہت جلد اور لامحاسبہ ہونے ولا ہے) ذکر الهی کا حکم دینے کے بعد دعا کی کیفیت بیان فرمائی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو صرف دنیا کے طالب ہوتے ہیں ایسے لوگ آخروی نعمتوں سے یکسر محروم رہیں گے۔ (دیکھئے الشوری آیت 20) اور دوسرے وہ جو دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی طلب کرتے ہیں۔ اصل کامیابی انہی لوگوں کی ہے۔ (رازی۔ شوکانی) دنیا کی بھلائی (حسنہ) میں صحت، وسعت رزق، علم دین اور عبادت الہی کی توفیق۔ الغرض سب نیک اعمال شامل ہیں اور آخرت کی بھلائی میں دوزخ سے نجات جنت اور رضا الہی کا حصول حساب میں آسانی وغیرہ داخل ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نماز اور عام اوقات میں بھی یہ دعا بکثرت فرمایا کرتے تھے۔ فی الجملہ یہ ایک نہایت جامع دعا ہے متعدد احادیث میں اس کی ترغیب آئی ہے۔ طواف کے وقت رکن یمانی اور حجر اسود کے مابین یہ دعا مسنون ہے (ابن کثیر۔ روح المعانی)