سورة البقرة - آیت 194

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اگر حرم کے مہینوں کے رعایت کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی رعایت ہونی چاہیے۔ اگر نہ کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی نہیں ہے۔ (مہینوں کی) حرمت کے معاملہ میں (جب کہ لڑائی ہو) ادلہ کا بدلہ ہے (یعنی جیسی روش ایک فریق جنگ کی ہوگی، ویسی ہی دوسرے فریق کو بھی اختیار کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک فریق تو مہینوں کی حرمت سے بے پروا ہو کر حملہ کردے اور دوسرا فریق حرمت کے خیال سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے) پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو چہایے کہ ججس طرح کا معاملہ اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے ویسا ہی معاملہ تم بھی اس کے ساتھ کرو، البتہ (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات نہ بھولو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (انے تمام کاموں میں) پرہیز گار ہیں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4: آنحضرت (ﷺ) ذی القعدۃ6 ھ میں جب عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تو کفار نے مزاحمت کی اور عمرہ سے روک دیا مگر آخر کار صلح ہوگئی اور قرار پایا کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کرلیں یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ پھر جب دو سرے سال 7 ھ میں مسلمان عمرہ کے لیے روانہ ہوئے ان کو اندیشہ ہوا کہ ماہ حرام اور حرم مکہ میں لڑائی ممنوع ہے لیکن اگر کفار نے بد عہدی کی اور ہمیں عمرہ نہ کرنے دیا تو ہم کیا کریں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ کبیر) یعنی اگر کفار حرام مہینوں کا لحاظ نہ کریں تو تم بھی نہ کرو اور اگر وہ بد عہدی کریں تو تم بھی حرم مکہ کا لحاظ مت کرو۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) فائدہ: واضح رہے کہ اشہر حرم (حرام مہینے) چار ہیں۔1۔ ذوالقعدہ، 2۔ ذوالحجۃ، 3۔ محرم، 4۔ رجب