سورة النحل - آیت 92

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور دیکھو تمہاری مثال اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے بڑی محنت سے سوت کا تا، پھر توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ تم آپس کے معاملہ میں اپنی قسموں کو مکرو و فساد کا ذریعہ بناتے ہو، اس لیے کہ ایک گروہ (کسی) دوسرے گروہ سے (طاقت میں) بڑھ چڑھ گیا ہے (یاد رکھو) اللہ اس معاملہ میں تمہاری (راست بازی و استقامت کی) آزمائش کرتا ہے (کہ تم طاقتور گروہ کا پاس کرنے لگتے ہو یا اپنے قول و قرار کا) جن جن باتوں میں تمہارے اختلاف ہیں ضرور ایسا ہوگا کہ وہ قیامت کے دن (حقیقت حال) تم پر آشکارا کردے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 9 یہ ایک تشبیہ ہے جو قسموں کو پختہ کرنے کے بعد ان کو توڑنے والوں کے لئے بیان کی گی ہے۔ ضرویر نہیں کہ ایسی عورت کہیں پائی بھی گئی ہو اگر یہ ان جرتیر اور ابن ابی حاتم کی بعض روایات میں ہے کہ مکہ میں ایک پاگل عورت تھی و نبوت کا تتی اور پھر سے خوب بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس آیت میں قسمیں توڑنے والوں کو اس عورت سے تشبیہ دی گی ہے واللہ اعلم فیضا القربی) ف 10 یعنی کسی گروہ سے اس لئے بدعہدی نہ کرو جب تم نے عہد ……موجود تھے اور یہ سمجھو طاقت ور تھا اور اب تم طاقتور ہوگئے ہو اور یہ کمزور ہوگیا ہے یا اب تمہیں اس سے زیادہ طاقتور کوئی دوسرا حلیف مل گیا جیسا کہ اہل جاہلیت کرتے تھے۔ شوکانی (قرطبی) اور جیسا کہ اس آنے میں اہل مغرب کا عام دستور ہے۔ ف 11 کہ تم اپنے عہد پر قائم رہتے ہو یا دسروں گروہ کو طاقتور یا کمزور پا کر اپنے عہد کا خیال چھوڑ دیتے ہو۔ (قرطبی)