وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اور دیکھو تمہاری مثال اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے بڑی محنت سے سوت کا تا، پھر توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ تم آپس کے معاملہ میں اپنی قسموں کو مکرو و فساد کا ذریعہ بناتے ہو، اس لیے کہ ایک گروہ (کسی) دوسرے گروہ سے (طاقت میں) بڑھ چڑھ گیا ہے (یاد رکھو) اللہ اس معاملہ میں تمہاری (راست بازی و استقامت کی) آزمائش کرتا ہے (کہ تم طاقتور گروہ کا پاس کرنے لگتے ہو یا اپنے قول و قرار کا) جن جن باتوں میں تمہارے اختلاف ہیں ضرور ایسا ہوگا کہ وہ قیامت کے دن (حقیقت حال) تم پر آشکارا کردے۔
ف 9 یہ ایک تشبیہ ہے جو قسموں کو پختہ کرنے کے بعد ان کو توڑنے والوں کے لئے بیان کی گی ہے۔ ضروری نہیں کہ ایسی عورت کہیں پائی بھی گئی ہو اگر یہ ان جریر اور ابن ابی حاتم کی بعض روایات میں ہے کہ مکہ میں ایک پاگل عورت تھی وہ سوت کا تتی اور پھرا سے خوب بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس آیت میں قسمیں توڑنے والوں کو اس عورت سے تشبیہ دی گی ہے( واللہ اعلم ایضا لقرطبی) ف 10 یعنی کسی گروہ سے اس لئے بدعہدی نہ کروکہ جب تم نے عہدكیاتھا اس وقت وہ اس کام پر مامور تھے اور یہ کہ وه طاقت ور تھا اور اب تم طاقتور ہوگئے ہو اور یہ کمزور ہوگیا ہے یا اب تمہیں اس سے زیادہ طاقتور کوئی دوسرا حلیف مل گیا جیسا کہ اہل جاہلیت کرتے تھے۔ شوکانی (قرطبی) اور جیسا کہ اس زمانے میں اہل مغرب کا عام دستور ہے۔ ف 11 کہ تم اپنے عہد پر قائم رہتے ہو یا دسروے گروہ کو طاقتور یا کمزور پا کر اپنے عہد کا خیال چھوڑ دیتے ہو۔ (قرطبی)