وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اور (دیکھو) جو لوگ تم سے لڑائی لڑ رہے ہیں چاہیے کہ اللہ کی راہ میں تم بھی ان سے لڑو۔ (پیٹھ نہ دکھلاؤ) البتہ کسی طرح کی زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرنے والے ہیں
ف 6 : اوپر کی آیت میں دو حکم مذ کور ہیں۔ (شو کانی) معرفت الہی میں استقامت جس کا تعلق علم سے ہے اور اطاعت میں تقوی کے راہ اختیار کرنا جو عمل سے متعلق ہے۔ اس آیت میں جہاد کا حکم ہے جو عملا تقوی کی مشکل ترین صورت ہے۔ (کبیر) جملہ اہل علم اس امر پر متفق ہیں کہ ہجرت سے قبل قتال ممنوع تھا۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد یہ پہلا حکم ہے جو قتال کی اجازت میں نازل ہوا۔ اس آیت کے تحت جب تک کہ عام اجازت نازل نہیں ہوئی آنحضرت (ﷺ) انہی سے لڑتے جو پہل کرتے اس کے بعد عام اجازت ہوگئی۔ اس آیت میں’’ اعتدا‘‘۔ یعنی ہر قسم کے ظلم وزیادتی سے منع فرمادیا ہے۔ چنانچہ حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (ﷺ) (جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو) تو حکم دیتے ’’جاؤ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں لڑو مگر خیانت بدعہدی اور مثلہ نہ کرو۔۔ بچوں، عورتوں اور دوریشوں (راہبوں) کو قتل نہ کرو۔ (صحیح مسلم) معلوم ہوا کہ یہ جملہ امور’’ اعتدا ‘‘میں داخل ہیں جس سے منع فرمایا ہے۔، (ابن کثیر، کبیر) بعض نے اس آیت کو بلا وجہ منسوخ قراردیدیا ہے۔ (کبیر)