يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے پیغمبر لوگ تم سے (مہینوں کی) چاند رات کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے ہہ دو یہ انسان کے لیے وقت کا حساب ہے اور اس سے حج کے مہینے کا تعین ہوجاتا ہے (باقی جس قدر توہمات لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور طرح طرح کی رسمیں اختیار کر رکھی ہیں تو ان کی کوئی اصلیت نہیں) اور یہ کوئی نیکی کی بات نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں (دروازہ چھوڑ کر) پچھواڑے سے داخل ہو) جیسا کہ عرب کی رسم تھی کہ حج کے مہینے کا چاند دیکھ لیتے اور احرام باندھ لینے کے بعد اگر گھروں میں داخل ہونا چاہتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے، پچھواڑے سے راہ نکال کر جاتے) نیکی تو اس کے لیے ہے جس نے اپنے اندر تقوی پیدا کیا۔ پس (ان وہم پرستیوں میں مبتلا نہ ہو) گھروں میں آؤ تو دروازے ہی کی راہ آؤ۔ (پچھواڑے سے راہ نکالنے کی مصیبت میں کیوں پڑو) البتہ اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ (طلب سعادت میں) کامیاب ہو
ف 4 ۡ: أَهِلَّةِ یہ جمع ہلال کی ہے اور چاند کے پورا ہونے سے پہلے اسے ہلال کہا جاتا ہے۔ لوگوں نے اس کی کمی بیشی کا سبب دریافت کیا اللہ تعالیٰ نے﴿ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ﴾ فرما كر حکیمانہ انداز میں اس کے فوائد کی طرف اشارہ فرمادیا ہے چاند کے بڑھنے گھٹنے کے فائدے یہ ہیں کہ عبادات اور معاملات جیسے طلاق کی عدت حج، عید الفطر وغیرہ کے اوقات اس کے ساتھ متعلق ہیں ان کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ (شوکانی) ف 5: اس کا تعلق بھی چونکہ حج سے ہے اس لیے یہاں بیان فرمادیا جاہلیت میں توہم پرستی کا غلبہ تھا ان کے ہاں یہ رسم تھی کہ وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے اور پھر گھر میں آنے کی ضرورت پڑتی تو دروازے کی بجائے پیچھے سے چھت پر چڑھ کر آتے۔ کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ احرام باندھ لینے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل ہو۔ اس آیت میں ان کی غلط رسم کی تردید فرمائی ہے۔ (شوکانی )