سورة البقرة - آیت 186

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) جب میرا کوئی بندہ میری نسبت تم سے دریافت کرے (کہ کیونکر مجھ تک پہنچ سکتا ہے؟ تو تم اسے بتلا دو کہ) میں تو اس کے پاس ہوں وہ جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا اور اسے قبول کرتا ہوں۔ پس (اگر وہ واقعی میری طلب رکھتے ہیں تو) چاہیے کہ میری پکار کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ حصول مقصد میں کامیاب ہوں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4: ایک شخص نے آنحضرت (ﷺ) سے پوچھا کہ ہمارا رب نزدیک ہے تو ہم اس سے مناجات کریں دور ہے تو ہم اس کو پکاریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کو سنتا ہے لہذا تمہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، ماہ رمضان کے سلسلہ میں اس آیت کے آجانے کا مطلب یہ ہے کہ ماہ رمضان خصوصا روزے کی حالت دعاؤں کے قبول ہونے کا خاص سبب ہے۔ ( ابن کثیر) ایک حدیث کے ضمن میں ہے کہ روزے دار کی دعا رائے گاں نہیں جاتی۔ اس کی دعا کے لیے بھی آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ (ترمذی۔ نسائی) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ افطار کے وقت دعاقبول ہوتی ہے۔( مشکوہ۔ کتاب الدعوات) یہی وجہ ہے یہ ماہ رمضان کے دوران میں کثرت استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ (ترغیب۔ درمنثور)