شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
یہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول (شروع) ہوا۔ وہ انسانوں کے لیے رہنما ہے، ہدایت کی روشن صداقیں رکھتا ہے اور حق کو باطل سے الگ کردینے والا ہے۔ پس جو کوئی تم میں سے یہ مہینہ پائے تو چاہیے کہ اس میں روزہ رکھے۔ ہاں جو کوئی بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ دوسرے دنوں میں چھوٹے ہوئے روزوں کی گنتی پوری کرلے۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ سخی و تنگی نہیں چاہتا۔ اور یہ (جو بیماروں اور مسافروں کے لیے روزہ قضا کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو یہ) اس لیے ہے کہ (حکمت الٰہی نے روزے کے فوائد کے لیے دنوں کی ایک خاص گنتی ٹھہرا دی ہے تو تم اس کی) گنتی پوری کرلو (اور اس عمل میں ادھورے نہ رہو) اور اس لیے بھی کہ اللہ نے تم پر راہ (سعادت) کھول دی ہے تو اس پر اس کی بڑائی کا اعلان کرو۔ نیز اس لیے کہ (اس کی نعمت کام میں لا کر) اس کی شکر گزاری میں سرگرم رہو
ف 1 یعنی وہ ایام معدودہ ماہ رمضان ہے لہذا اس پورے مہینہ کے روزے رکھے جائیں۔ علاہ ازیں ماہ رمضان کی فضیلت یہ ہے کہ قرآن پاک تمام آسمانی کتابیں اس مہینہ میں انبیاء پر نازل ہوئی ہیں۔ علماء تفسری نے لکھا ہے کہ اولا قرآن پاک شہر رمضان میں شب قدر کو لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر بیت العزہ میں بتمعا مہ نازل کردیا گیا۔ (دیکھئے سورت القدر آیت 1) اس کے بعد 23 سال میں بتدریج حسب ضرور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہو تارہا۔ لہذایہ بھی صحیح ہے کہ قرآن مجید رمضان میں نازل کیا گیا اور یہ بھی کہ لیلتہ القدر میں نازل ہوا اور یہ بھی کہ 23 سال میں متفق طو پر نازل کیا گیا۔ (ابن کثیر) یہی وجہ ہے کہ آنحضرت رمضان میں قرآن پاک کا حضرت جبریل (علیہ السلام) سے دور فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری باب بد الوحی) اور بہت سے روایتوں میں ماہ رمضان کی راتوں میں قیام کی فضیلت آئی ہے اور فرمایا کہ اس سے سب پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں یہ قیام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے 23۔25۔27 تین روز تراویح کی نماز باجماعت پڑھائی۔ فتح الباری ج 1 ص 59) میں بحوالہ قیام اللیل مر وزی بروایت جابر لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ رکعت تراویح اور وتر سے قیام فرمایا۔ ارمضان میں قرآن کی تلاوت سے خصوصی شغف احادیث کے علاوہ تعامل سلف سے بھی ثابت ہے جس سے رمضان اور قرآن کا تعلق بخوبی واضح ہوجاتا ہے ف 2 یعنی سفر یابیماری کو جہ سے اگر رمضان کاروزہ نہ رکھ سکے تو دوسرے دنوں میں رمضان کے دنوں کی گنتی پوری کرلے۔ ( ابن کثیر۔ فتح لقدیر) ف 3 اس سے علماء نے عیدک الفطر میں تکبیرات کی مشروعیت اخذ کی ہے پہنچ کر نماز کے کھڑاہو نے تک تکبیریں کہتا رہے۔ الفاظ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد۔ (دراقطنی۔ ابن کثیر) (سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے سورت الا علی آیت 1، سورت الکوثر )