سورة البقرة - آیت 11

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں خرابی نہ پھیلاؤ (اور بدعملیوں سے باز آجاؤ) تو کہتے ہیں (ہمارے کام خرابی کا باعث کیسے ہوسکتے ہیں) ہم تو سنوارنے والے ہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7: فساد دراصل اصلاح کی ضد ہے اوراس کے معنی ہیں استقامت سے ہٹ جا نا یہاں فساد سے مراد ہے کفر و معصیت کا ارتکاب حضرت عبدا اللہ بن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ نے یہی تفسیر کی ہے۔ ( ابن کثیر) یہ واقعہ ہے کہ ہر زمانے میں مفسد اور گم راہ لوگ نشر و اشاعت کے لیے خوبصورت عنوان تجویز کرتے رہے ہیں جیسا کہ آجکل دعا بتوسل غیر کے نام سے شرک ہو رہا ہے (المنار)۔ ہمارے زمانے میں بھی منافقوں کی جھوٹی ذریت پیدا ہوئی ہے جس کا دعوی تو مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا ہے۔ اور وہ خود کو پکے مسلمان سمجھتے ہیں مگر در اصل وہ اسلام کے ڈھانے اور اس کے عقائد و شرائع اور احکام کو نیست وبابود کرنے کی فکر میں جس ترقی کے یہ لوگ خواہاں ہیں وہ مسلمانوں کی ترقی نہیں بلکہ کفرونفاق کی ترقی ہے۔ (وحیدی)