سورة البقرة - آیت 173

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ نے جو چیزیں تم پر حرام کردی ہیں وہ تو صرف یہ ہیں کہ مردار جانور، حیوانات کا خون، سور کا گوشت، اور وہ (جانور) جو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کے نام پر پکارے جائیں۔ البتہ اگر ایسی حالت پیش آجائے کہ ایک آدمی (حلال غذا نہ مل سکنے کی وجہ سے) بہ حالت مجبور کھا لے اور یہ بات نہ ہو کہ حکم شریعت کی پابندی سے نکل جانا چاہتا ہو یا اتنی مقدار سے زیادہ کھانا چاہتا ہو جتنے کی (زندگی بچانے کے لیے) ضرورت ہے تو اس صورت میں مجبور آدمی کے لیے کوئی گناہ نہ ہوگا۔ بلاشبہ اللہ (خطاؤں لغزشوں کو) بخش دینے والا اور (ہر حال میں) تمہارے لیے رحمت رکھنے والا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انما کلمہ حصر کے ساتھ صرف چار چیزوں کا کھانا حرام قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں سب جانوروں کا گوشت حلا ہے ماسوا ان کے جن کو حدیث میں حرام قرار دیا گیا ہے مثلا درندہ جانور اور پنجہ سے شکار کرنے والا پرندہ اور الحمر لا ھلیتہ یعنی گدھا۔ المیتتہ ہر اس حلال جانور کو کہا جاتا ہے جو بدوں ذبح شرعی کے مرگیا ہو عام اس سے کہ طبعی موت مراہو یا کسی حادثے سے ہلاک ہوگیا ہو (دیکھئے سورت الانعام آیت 145) اور حدیث میں ہے : احلت لنا میتتان الحوت والجر ادودمان الکبدو الطحال کہ دو مردو جانور ہمارے لیے حلال ہیں یعنی مردہ مچھلی اور ٹڈی اور دو خون جگر اور تلی۔ ( قرطبی بحوالہ دار قطنی) اور الدم سے دم مسفوح مراد ہے یعنی وہ خون جو جانور کی رگوں سے بہا دیا گیا ہو لہذا جو خون گوشت کے ساتھ ملا ہوتا ہے وہ بالا جماع حلال ہے حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں گو شت پکاتی تو ہنڈیا کے اور پر خون کی وجہ سے زردی سی آجاتی آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم اسے تناول فرمالیتے اور اس پر انکار نہ فرماتے۔ (قرطبی) سؤر کی چربی بھی گوشت کی طرح حرام ہے۔ سمندر کے مردہ جانوروں کے لیے دیکھئے۔ ( سورت المائدہ آیت) اور ما اھل لغیر اللہ میں وہ تمام جانور اور دوسری چیزیں آجاتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی او کی نذر نیاز کے لیے مخصوص کردیا جائے ایسے جانور کا گوشت حرام ہے خواہ ذبح کے وقت کسی بزرگ یا قبر یابت کا نام لیا جائے اور خواہ اسے بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کیا جائے مفسرین نے اھل لغیر اللہ کی تفسیر میں عندالذیح یعنی ذبح وقت اس پر غیر اللہ کا نام لا جائے) کی قید لگائی ہے تو یہ اس وقت کے عمومی رواج کے پیش نظر لکھ دیا ہے اس طرح غیر شرعی تہواروں پر جو جانو ذبح کیے جاتے ہیں ہو بھی اھل لغیر اللہ میں داخل ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) سے استفسار کیا گیا عجمی لوگوں کے تہواروں میں ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت کھانا حلال ہے یا نہیں تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا جو جانور خاص اس دن کے لیے زبح ہوں ان کو مت کھاؤ۔ (قرطبی۔ کبیر) امام شوکانی فرماتے ہیں اس حکم میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو فرط اعتقاد سے بزرگوں کی قبروں پر ذبح کئے جاتے ہیں۔ ) (فتح القدیر) سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے) سورت الا نعام آیت : ا 145) ایک حدیث میں غیر اللہ کے نام پر ذبح کی وعید بھی آتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ھلعون من ذج لغیر اللہ۔ یعنی غیر اللہ تقرب حاصل کر کے لیے ذبح کرنے والا ملعون جامع صیغہ ج 3 ص 266) نیز تفسیر نیشاپوری میں ہے۔ اجمع العلماء لو ان مسلما ذبحتہ ویرید بذ بحھا التقرب الی غیر اللہ صادمرتد ااوذبحتہ ذیبحتہ مرتد ؛ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی مسلمان غیر اللہ تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرے تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذیبحہ مرتد کا ذیبحہ ہے۔ تفسیر عزیزی ص 611) نیز سورت الا نعام آیت 3)