وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
غرض کہ تمہیں (اپنی زندگی کی کاربراریوں اور کامرانیوں کے لیے) جو کچھ مطلب تھا اس نے عطا فرما دیا۔ اگر تم اللہ کی نعمتیں گننی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی ان کا احاطہ نہ کرسکو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی ناانصاف بڑا ہی ناشکرا ہے۔
ف 4۔ دن کو کام کام کرتے ہو اور رات کو سوتے اور آرام کرتے ہو۔ ف 5۔ یعنی اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے تمہیں جن اسباب و وسائل کی ضرورت تھی اور جو تمہارے تقاضے تھے وہ سب اس نے فراہم کردئیے۔ ف 6۔ یعنی اجمالی طور پر بھی گن نہیں سکو گے چہ جائیکہ تفصیلی طور پر ان کا احصاء ہوسکے تو سوچو تم اس کا شکر کیونکہ ادا کرسکتے ہو۔ (شوکانی) ف 7۔ اس پر اللہ تعالیٰ کے کتنے احسانات ہیں اور ہر آن ہوتے رہتے ہیں مگر وہ ہے کہ ذرا سی تکلیف پہنچتی ہے تو ناشکری پر اتر آتا ہے۔ ظلوم سے یہی مراد ہے۔ (از وحیدی)۔