يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ
اللہ جو بات چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے نقش کردیتا ہے اور کتاب کی اصل و بنیاد اسی کے پاس ہے۔
ف 3۔ پس اپنی حکمت یہ مطابق جن احکام کو چاہتا ہے منسوخ قرار دیدتا ہے اور جن کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ (روح)۔ ف 4۔ یا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ہے جس میں کسی قسم کا ردو بدل نہیں ہوتا۔ نیز جملہ احادیث و آثار کو سامنے رکھ کر علما نے لکھا ہے کہ قضائے مبرم میں تغیر و تبدیل نہیں ہوتا جو ” جف القالم بما ھو کائن“ سے عبارت ہے۔ ہاں تبدیلی جو کچھ ہوتی ہے اور محواثبات (جن میں نسخ احکام بھی داخل ہے) جو کچھ ہوتا ہے وہ تقدیر معلوم میں ہوتا ہے۔ چنانچہ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ دنیا میں ہر چیز اسباب سے ہے بعض اسباب ظاہر ہیں اور بعض چھپے ہیں۔ اسباب کی تاثیر کا ایک اندازہ مقرر ہے۔ جب اللہ چاہیے، ان کی تاثیر انداز سے کم زیادہ کردے اور جب چاہے ویسی ہی رکھے۔ آدمی کبھی کنکر سے مرتا ہے اور گولی سے بچتا ہے۔ اور ایک اندازہ ہر چیز کا اللہ کے علم میں ہے وہ ہرگز نہیں بدلتا۔ اندازے کو تقدیر کہتے ہیں۔ یہ دو تقدیریں ہوئیں، ایک بدلتی ہے (یعنی علم الٰہی) کذافی الموضح وللمتفصیل مقام آخر۔ (دیکھئے رازی)۔