وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور دیکھو زمین میں (طرح طرح کے) ٹکڑے ہیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے، ان میں انگور کے باغ ہیں، (غلہ کی) کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں، باہم دگر ملتے جلتے ہوئے اور بعض ایسے کہ ملتے جلتے ہوئے نہیں ہیں، سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں مگر بعض پھلوں کو بعض پر مزہ میں برتری دے دیتے ہیں۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
ف 10۔ یعنی وہ پانی تاثیر کے اعتبار سے ایک ہی قسم کا ہے۔ ف 11۔ معلوم ہوا کوئی صانع حکیم اور قادر مدبر ہے جس کے تصر سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ قرآن نے ان دلائل کا ذکر مختل مقامات پر کیا ہے۔ (از روح)۔ ف 12۔ یعنی جو عقل سے کام لیتے ہیں اور جو عقل سے کام نہیں لیتے ان کے لئے کوئی نشانی نہیں ہے۔