فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
پس (کارندوں کے سردرار نے) ان کی بوریوں کی تلاشی کی، قبل اس کے کہ یوسف کے بھائی (بنیامین) کی پوری کی تلاشی لیتے، اور کچھ نہ پایا) پھر یوسف کے بھائی کی بوری (دیکھی اور اس میں) سے پیالہ نکال لیا، (تو دیکھو) اس طرح ہم نے یوسف کے لیے (بنیامین کو پاس رکھنے کی) تدبیر کردی، وہ بادشاہ (مصر) کے قانون کی رو سے ایسا نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے بھائی کو روک لے (اگرچہ ایسا کرنے کے لیے اس کا دل بے قرار تھا) مگر ہاں اسی صورت میں کہ اللہ کو (اس کی راہ نکال دینا) منظور ہوتا (سو اس نے غیبی سامان کر کے راہ نکال دی) ہم جسے چاہتے ہیں مرتبوں میں بلند کردیتے ہیں اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والی ہستی ہے (جس کا علم سب کو احاطہ کیے ہوئے ہے، یعنی اللہ کی ہستی)
ف 9۔ یا اس طرح ہم نے یوسف ( علیہ السلام) کے لئے (بنیامین کو رکھ لینے کی) تدبیر کی۔ ف 1۔ کیونکہ مصر کا شاہی قانون یہ تھا کہ چور کو پیٹا جائے اور اس سے چوری کے مال کے علاوہ اتنا ہی مال اور لے کر اس شخص کو دے دیا جائے جس کا مال چوری ہوا ہے۔ اس قانون کی رو سے چور کو غلام نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ (ابن کثیر۔ شوکانی)۔ ف 2۔ یعنی یہ حضرت یوسف ( علیہ السلام)نے خود بھائیوں سے دریافت کیا کہ اگر تم چور نکلو تو تمہاری کیا سزا ہونی چاہیے اور پھر یہ جو ان بھائیوں کی زبان سے نکلا کہ جس کے پاس ہوا سے غلام بنا لیا جائے، یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ اللہ نے ایسا چاہا اور اسی نے تدبیر فرمائی۔ ورنہ اگر اللہ نہ چاہتا تو نہ حضرت یوسف اپنے بھائیوں سے چور کی سزا دریافت کرتے نہ بھائی بتاتے اور نہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) اپنے بھائی بنیامین کو اپنے ہاں رکھ سکتے۔ ف 3۔ یعنی جسے چاہتے ہیں علم عطا فرما کر اس کے درجے بلند کرتے ہیں۔ جیسے دوسر ےبھائیوں کے مقابلے میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے درجے بلند کئے۔ ف 4۔ یہاں تک کہ تمام جاننے والوں کے اوپر وہ ذات پاک ہے جسے عالم الغیب والشھادۃ کہتے ہیں۔