فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ
پھر جب یوسف نے ان لوگوں کا سامان ان کی روانگی کے لیے مہیا کیا تو اپنے بھائی (بنیامین کی بوری میں اپنا کٹورا رکھ دیا) (تاکہ بطور نشانی کے اس کے پاس رہے) پھر ایسا ہوا کہ (جب یہ لوگ روانہ ہوئے اور شاہی کارندوں نے پیالہ ڈھونڈا اور نہ پایا تو ان پر شبہ ہوا اور) ایک پکارنے والے نے (ان کے پیچھے) پکارا، اے قافلہ والو ! (ٹھہرو) ہو نہ ہو تم ہی چور ہو۔
ف 4۔ جو اکثر مفسرین (رح) کے قول کے مطابق چاندی کا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ سونے کا تھا جس پر جواہر لگے تھے لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ کوئی قیمتی پیالہ تھا۔ (کبیر)۔ ف 5۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے کٹورا رکھوانے کا یہ فعل اپنے بھائی کی رضا مندی سے اور اس کے علم میں لا کر کیا ہوگا جیسا کہ اوپر والی آیت سے اندازہ ہوتا ہے واللہ اعلم۔ ف 6۔ وہ اس لحاظ سے واقعی چور تھے کہ انہوں نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو باپ سے چرا کر کنویں میں پھینک دیا تھا۔ یا یہ پکارنا حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے اشارے اور حکم سے تھا ہی نہیں بلکہ جب لوگوں نے وہ کٹورا نہ پایا تو اسی قافلہ والوں پر چوری کا الزام لگایا جو اس وقت وہاں موجود تھا۔ یہی انسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ آیت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے پیالہ رکھنے کا تذکرہ اپنے غلاموں یا نوکروں سے کردیا تھا۔ (وحیدی)۔