سورة البقرة - آیت 156

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کبھی کوئی مصیبت ان پر آن پڑتی ہے تو (بے قرار ہونے کی جگہ ذکر الٰہی سے اپنی روح کو تقویت پہنچاتے ہیں، اور) ان کے زبان حال کی یہ صدا ہوتی ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون !(ہماری زندگی اور موت، رنج و غم، سود و زیاں، جو کچھ بھی ہے سب کچھ اللہ کے یلے ہے، اور ہم سب کو بالاآخر مرنا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6: مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان کو اذیت پہنچے خواہ کتنی معمولی کیوں نہ ہو۔ (قرطبی۔ شوکانی) ﴿إِنَّا لِلَّهِ ﴾۔۔ کلمہ استر جاع ہے حضور قلب کے ساتھ یہ کلمہ زبان سے کہا جائے تو سہی اظہار عبودیت بھی ہے اور دوبارہ زندہ ہو کر جزائے اعمال کا اعتراف بھی۔ (قرطبی۔ شوکانی) اور آیت İإِذَآ أَصَٰبَتۡهُم مُّصِيبَةĬ میں کلمہ اذا میں اشارہ ہے کہ مصیبت پہنچتے ہی صبر کرنا اور یہ کلمہ کہنا چاہیے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے(إنَّما الصَّبرُ عندَ الصَّدمةِ الأولَى (بخاری) کہ مصیبت جب تازہ ہو تو صبر ہے مصیبت پرا ستر جاع کی احادیث میں فضیلت بھی آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر مصیبت پر إِنَّا لِلَّهِ ۔۔۔ کے بعد یہ دعا بھی پڑھی جائے(اللَّهُمَّ ‌أَجِرْنِي فِي ‌مُصِيبَتِي هَذِه ِوَأَخْلُفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا) (اے للہ مجھے اس مصیبت کا اجر دے اور اس کے بدلے مجھے اس سے بہتر عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے (ابن کثیر۔ بحوالہ مسلم )