قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ
یوسف نے (یہ سن کر) اللہ کے حضور دعا کی خدایا ! مجھے قید میں رہنا اس بات سے کہیں زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ عورتیں بلا رہی ہیں، اگر تو نے (میری مدد نہ کی اور) ان کی مکاریوں کے دام سے نہ بچایا تو عجب نہیں میں ان کی طرف جھک پڑوں اور ان لوگوں میں سے ہوجاؤں جو ناشناس ہیں۔
ف 5۔ ” یہاں صیغہ تفضیل ’’ أَحَبُّ ‘‘ اپنے اصلی معنی میں نہیں ہے بلکہ دو مصیبتوں میں سے ” اہون“ کو اختیار فرما رہے ہیں۔“ یہ ہے اصل تقویٰ۔ حدیث میں ہے کہ سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عادل حکمران، وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں نشوونماپائی۔ وہ شخص جو مسجد سے جب بھی باہر جاتا ہے اس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے یہاں تک واپس آجائے۔ وہ دو آدمی جنہوں نے اللہ ہی کی رضا جوئی کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کی، اسی محبت پر جمع ہوئے اور اسی محبت پر جدا ہوئے۔ وہ آدمی جس نے اپنا صدقہ اس قدر چھپا کردیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا دیا۔ وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور وہ آدمی جسے کسی بااثر و رسوخ خوبصورت عورت نے اپنی طرف بلایا مگر اس نے کہاَ” إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ “ کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری مسلم)۔ ف 6۔ کیونکہ جب کوئی شخص اپنے علم كے مطابق عمل نہیں کرتا تو وہ اور جاہل برابر ہیں یا جہالت بمعنی سفاہت ہے۔ یہ ہے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی پیغمبرانہ شان، اپنی طہارت اور پاک دامنی کا قطعاً دعویٰ نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو حالات کا مقابلہ کرنے سے عاجز قرار دیتے ہوئے یہی فرمایا : کہ عفت و پاکدامنی پر ثابت قدم رکھنا للہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اگر توفیق نہ دے گا تو میں نفس اور شیطان کے فریب میں آکر گناہ کی طرف مائل ہوجائوں گا۔ (وحیدی)۔