قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ
تب (عزیز کی بیوی) بولی تم نے دیکھا؟ یہ ہے وہ آدمی جس کے بارے میں تم نے مجھے طعنے دیے تھے، ہاں بیشک میں نے اس کا دل اپنے قابو میں لینا چاہا تھا مگر وہ بے قابو نہ ہوا، اور (اب اسے سنا کے کہے دیتی ہوں کہ) اگر اس نے میرا کہا نہ مانا (اور اپنی ضد پر اڑا رہا) تو ضرور ایسا ہوگا کہ قید کیا جائے اور بے عزتی میں پڑے۔
ف 4۔ ان کے روبرو یہ بات کہی تا وہ بھی سمجھا ویں اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) ڈر کرقبول کریں۔ (موضح)۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے یہ سخت امتحان کا وقت تھا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں مصر کے اونچے طبقہ کی اخلاقی حالت کیا تھی۔ عزیزِ مصر کی بیوی نے جن عورتوں کو اپنے ہاں دعوت دی وہ عام گھرانوں کی معمولی عورتیں نہ ہوں گی بلکہ امراء روسا اور بڑے افسروں کی کھاتی پیتی بیگمات ہی ہوں گی۔ دعوت کے بہانے وہ ان عورتوں کو یوسف ( علیہ السلام) کے حسن کا قائل کرنے کے کوشش کرتی ہے پھر وہ بیگمات بھی ایسی ہی تھیں کہ انہوں نے عزیز مصر کی بیگم کو معذور سمجھا۔ یہی نہیں بلکہ عزیز مصر کی بیگم اسے برملا دھمکی دیتی ہے کہ اگر وہ اس کی خواہشات کا کھلونا نہ بنا تو اسے ذلیل ہونا پڑے گا اور جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔