سورة یوسف - آیت 19

وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) ایک قافلہ کا اس پر گزر ہوا (یعنی اس کنویں پر جس میں یوسف کو ڈالا تھا) اور قافلہ والوں نے پانی کے لیے اپنا سقہ بھیجا۔ پھر جونہی اس نے اپنا ڈول لٹکایا (اور یہ سمجھ کر کہ پانی سے بوجھل ہوچکا ہے اوپر کھینچا) تو (کیا دیکھتا ہے ایک جیتا جاگتا لڑکا اس میں بیٹھا ہے، وہ) پکار اٹھا کیا خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے۔ اور (پھر) قافلہ والوں نے اسے اپنا سرمایہ تجارت سمجھ کر چھپا رکھا (کہ کوئی دعویدات نہ نکل آئے) اور وہ جو کچھ کر رہے تھے اللہ کے علم سے پوشیدہ نہ تھا۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) اس کی رسی سے لٹك گئے اور اوپر آگئے۔ ف 5۔ ان سے یہ نہیں کہا کہ یہ لڑکا ہمیں کنویں سے ملا ہے بلکہ یہ کہا کہ اس کنویں کے مالکوں نے ہمیں یہ لڑکا اس لئے دیا ہے کہ اسے کہیں لے جا کر فروخت کردیں۔ اس صورت میں أَسَرُّوهُ بِضَٰعَةٗۚ “ میں فاعل کی ضمیر سقاء (وارد) کے لئے ہوگی۔ اور اگر اس کا مرجع حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی قرار دیئے جائیں تو اس جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ ” یوسف کے بھائیوں نے اس کے پیسے کھرے کرنے کے لئے کنویں میں چھپائے رکھا اس خیال سے کہ اگر کوئی قافلہ اسے نکالے گا تو اس سے کہیں گے یہ تو ہمارا غلام ہے جو کئی روز ہوئے ہمارے ہاں سے بھاگ آیا تھا پھر اسے اس کے ہاتھ فروخت کردیں گے۔ مگر آیت کے یہ دونوں مفہوم مبنی بر تکلف ہیں اور دوسرا مفہوم تو اسرائیلی روایات سے ماخوز ہے اور بائیبل کے بیان کے مطابق ہے۔ آیت کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ قافلہ والوں نے اسے پونچی سمجھ کر لوگوں سے چھپا لیا تاکہ ارد گرد کے رہنے والوں میں کوئی شخص اسے ان کے پاس دیکھ کر یہ دعویٰ نہ کردے کہ یہ ہمارا لڑکا ہے۔