سورة یوسف - آیت 8

إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ایسا ہوا تھا کہ (یوسف کے سوتیلے بھائی آپس میں) کہنے لگے، ہمارے باپ کو یوسف اور اس کا بھائی (بنیامین) ہم سب سے بہت زیادہ پیارا ہے حالانکہ ہم ایک پوری جماعت ہیں (یعنی ہماری اتنی بڑی تعداد ہے) اور یقینا ہمارا باپ صریح غلطی پر ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 12۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے سے کہا۔ ف 1۔ یعنی ہم وقت پر کام آنے والے ہیں اور یہ لڑکے ہیں چھوٹے۔ ایک ان کا سگا بھائی تھا اور سب سوتیلے۔ (موضح)۔ مطلب یہ ہے کہ یوسف اور اس کا بھائی چھوٹے ہونے کی وجہ سے اس کے کسی کام نہیں آسکتے اور ہم ایک جتھا ہیں۔ اس بدوسی ماحول میں وقت پر کام آسکتے ہیں۔ (روح۔ شوکانی)۔ ف 2۔ یعنی رائے کی غلطی جو دنیوی معاملات میں ہوتی ہے۔ یہاں ضلالت سے دینی ضلالت مراد نہیں ہے ایسا کہتے تو یہ لوگ کافر ہوجاتے۔ (وحیدی)۔