سورة یوسف - آیت 7

لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو لوگ (حقیقت حال) پوچھنے والے ہیں (اگر وہ سمجھیں تو) ان کے لیے یوسف اور اس کے بھائیوں کے معاملہ میں (موعظت و عبرت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 11۔ منقول ہے کہ قریش ہونے یہود کے اشارے پر۔ امتحاناً آنحضرت ﷺ سے یہ سوال کیا کہ حضرت ابراہیمﷺ کا وطن شام تھا تو بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوگئے حتیٰ کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے دور میں فرعون سے نجات حاصل کی۔ اس پر یہ سورت اُتری اور فرمایا کہ سوال کرنے والے کیلئے اس قصہ میں بہت سی نشانیاں ہیں انہوں نے ایک بھائی پر حسد کیا تو آخر کار۔ اسی کے محتاج ہوئے۔ اسی طرح یہود حسد کررہے ہیں اور قریش نے آنحضرت ﷺ کو وطن سے نکالا تو آخر کار اسی کا عروج ہوا۔ (کذافی الموضح) مگر یہ روایات اسرائیلی ہیں۔ حافط ابن کثیر (رح) نے ان کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل دوسری ایک دو روایت بحوالہ ابن جریر بیان کی ہیں کہ صحابہ (رض) کے سوال پر یہ سورت نازل ہوئی۔ بہرحال اگر اسرائیلی روایات کو معتبر مان لیا جائے تو نشانیوں سے مراد آنحضرت ﷺ کی نبوت کی نشانیاں ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد یہودی یا کفار مکہ اور اگر ان کا اعتبار نہ کیا جائے تو آیات سے مراد وہ عبرتیں ہیں جو حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے قصے میں پائی جاتی ہیں۔ اور پوچھنے والوں سے مراد وہ لوگ جو اللہ کی آیات کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صاحب معالم نےان عبرتوں کو خوب تفصیل سے لکھا ہے۔ (ابن کثیر۔ معالم)۔