قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
(باپ نے کہا) اے میری بیٹے ! اپنے اس خواب کا حال اپنے بھائیوں سے نہ کہہ دیجیو کہ وہ تیرے خلاف کسی منصوبہ کی تدبیریں کرنے لگیں۔ یاد رکھ، شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔
ف 6۔ یعنی اس کی تعبیر سنتے ہی سمجھ لیں گے گیارہ بھائی تھے اور ایک باپ، ایک ماں، ان کی طرف محتاج ہوں گے۔ پھر شیطان ان کے دل میں حسد ڈالے گا۔ (موضح)۔ تعبیر حضرت یعقوب ( علیہ السلام) تو سمجھ گئے تھے اس لئے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو اپنے بھائیوں سے ہوشیار رہنے اور انہیں اپنا خواب نہ بتانے کی تلقین فرمائی۔ ایسا نہ ہو کہ وہ خواب کی تعبیر سمجھ جائیں اور ازراہِ حسد انہیں کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی جیسا کہ روایت میں ہے ہر خواب بیان کرنے میں احتیاط کی تعلیم دی ہے۔ فرمایا (لَا تُحَدِّثْ بِهَا إِلَّا حَبِيبًا أَوْ لَبِيبًا)(مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی)۔ یعنی خواب کسی خیر اندیش یا سمجھ دار کے سامنے ہی بیان کرو۔ دوسری حدیث میں فرمایا : اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطانی وسوسہ۔ اگر کوئی شخص اچھا خواب دیکھئے تو صرف اس کو بتائے جو اس کا اپنادوست اور خیر خواہ ہو اور جب برا خواب نظر آئے تو تین دفعہ اوَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا» پڑھتے اور بائیں طرف تھوک دے ان شاء اللہ اس کو کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔ ایک روایت میں یہ بھی فرمایا کہ کروٹ بھی بدل دے۔ (بخاری)۔ اور یہ کچھ مستعبد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہر قسم کے ضرر سے سلامتی کا سبب بنادے جیسا کہ صدقہ وخیرات مصائب دور کرنے كا سبب بن جاتے ہیں۔